فوارہ چوک: کراچی میں امریکی صدر آئزن ہاور کے لیے بنوایا گیا میوزیکل فوارہ آخر کدھر گیا؟
کراچی میں آپ کو چاہے زینب مارکیٹ سے جینز پینٹ یا ٹی شرٹ لینی ہو، پریس کلب جانا ہو یا گورنر ہاؤس، رکشہ یا ٹیکسی ڈرائیور کو منزل کا پتا سمجھانے کے لیے فوری طور پر ’فوارہ چوک‘ کا حوالہ دیا جاتا ہے
فوارہ چوک وسطی شہر کی ایک بڑی پہچان ہے، لیکن کیا یہ فوارہ چوک اپنی حقیقی شکل و صورت میں موجود ہے؟
کلفٹن سے ایم اے جناح روڈ تک پھیلے ہوئے موجودہ عبداللہ ہارون روڈ اور وکٹوریہ روڈ پر کراچی کے پہلے چرچ ہولی ٹرینیٹی کے قریب سفید سنگ مرمر سے تعمیر شدہ چوک پر فوارے اور اس سے نکلنے والی پانی کی دھار کا تو نام و نشان نہیں البتہ چاروں طرف واضح طور پر تحریر ہے کہ ’سترہویں صدی کی مغلیہ بارہ دری، مریم عبداللہ اور ارشد عبداللہ کے نام وقف کی جاتی ہے‘
اس چوک پر سبزہ لگایا گیا ہے اور سورج غروب ہونے کے بعد جب ٹریفک کا رش اور شور کم ہوتا ہے تو کئی لوگ اپنے خاندان کے ساتھ یہاں آکر ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بجلی کے بریک ڈاؤن اور لوڈشیڈنگ کے دنوں میں تو یہ تعداد اور بڑھ جاتی ہے
اس بارہ دری کے دوسری طرف موجود مدینہ سٹی مال کے درمیان فٹ پاتھ پر بھورے رنگ کی ٹائیلیں لگی ہیں جس پر سیاہ سنگ مرمر پر اس فوارے کا نام ’جناح فاونٹین‘ کندہ ہے
ساتھ میں اس فوارے پر تینوں افواج، چاروں صوبوں اور ان کی ثقافت کی نمائندہ تحریر ہے لیکن یہ تحریر عبارت کم ہی لوگ پڑھتے ہوں گے یا پڑھ سکتے ہوں گے کیونکہ یہ جگہ موٹر سائیکلوں کی پارکنگ میں تبدیل ہو چکی ہے
اس کا سنگ بنیاد سنہ 1997 میں گورنر کمال اظفر نے رکھا جبکہ افتتاح اس وقت کے وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی نے کیا
فوارہ چوک
اندر ہی اندر خفیہ انداز میں کام ہوتا رہا
محمد سعید جاوید اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’ایسا تھا میرا کراچی‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ سنہ 1959 کی بات ہے کہ فوارہ چوک کے مقام پر تعمیر کے دوران چاروں طرف قناطیں تان دی گئیں اور ان کے اندر ہی اندر خفیہ انداز میں کام ہوتا رہا
کسی کو کچھ پتہ نہ تھا کہ اس چوراہے پر یکایک یہ پردے کیوں لگ گئے ہیں، لوگ بس تجسس بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے گزر جاتے تھے
پھر ایک دن پردہ اٹھ گیا اور نیچے سے تالاب میں کھڑا ہوا سیاہ رنگت کا عجیب و غریب سا مجمسہ نکل آیا جو دور سے کوئی لمبی گردن والا گھوڑا نظر آتا تھا جس کی کمر کے اوپر سے پانی اچھل اچھل کر ہواؤں میں دور تک جاتا جاتا اور پھر ایسے ہی تالاب میں گرجاتا تھا۔ اس کے پیٹ اور گردن کے اندر کہیں چھپا کر بڑے بڑے سپیکر لگائے گئے تھے، جن میں سے ہلکی ہلکی مگر مدھر سی موسیقی کے سر پھوٹتے تھے
کسی سمجھ دار شخص نے بتایا کہ یہ گھوڑا نہیں بلکہ موسیقی کی کتاب سے بندھا ہوا کوئی سر ہے جو اپنی غیر معمولی صحت مندی کی وجہ سے کچھ جناتی سا لگ رہا تھا
ایک روز امریکی صدر آئزن ہاور آ گئے
یہ میوزیکل فاونٹین صدر ایوب خان نے خاص طور پر امریکی صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور کے استقبال کے لیے بنوایا تھا جو صدر پاکستان کی دعوت پر دسمبر 1959 میں پاکستان کے دورے پر پہنچے تھے۔ ان دنوں پاکستان نے چین اور روس سے نظریاتی بنیادوں پر دوری رکھی ہوئی تھی
فوارہ چوک
محمد سعید جو ان دنوں سکول میں زیر تعلیم تھے اس تقریب کے چشم دید گواہ ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ امریکی صدر آئزن ہاور کا قافلہ ہوائی اڈے سے نکلا اور ڈرگ روڈ سے ہوتا ہوا میٹرو پول کے ساتھ اس طرف آیا۔ صدر آئزن ہاور اور صدر ایوب خان ایک کھلی کار میں کھڑے تھے اور ہاتھ ہلاہلا کر نعروں کا جواب دے رہے تھے
تمام قریبی اسکول کے بچوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ اپنے صاف ستھرے یونیفارم میں قطار بنا کر کھڑے ہو جائیں، معزز مہمان کے آنے پر تالیاں بجائیں اور زندہ باد کے نعرے لگائیں اور چھوٹے چھوٹے امریکی اور پاکستانی جھنڈے لہرائیں
جب دونوں صدر فوارے کے قریب پہنچے تو خاص طور پر اس خوبصورت فوارے کا پورا چکر لگوایا گیا جس میں سے اس وقت بلند آواز میں کوئی مغربی موسیقی بج رہی تھی
’اس دشت میں اک شہر تھا‘ میں اقبال رحمان مانڈوی والا لکھتے ہیں کہ امریکی صدر کو اسی راہ سے گزر کر ایوان صدر پہنچنا تھا جو اب گورنر ہاؤس سندھ کہلاتا ہے۔" آئزن ہاور صاحب تو آئے اور گزر گئے مگر کراچی کی عوام کو ایک تحفہ ضرور دے گئے
ٹوپسی اور کولڈ ڈرنکس
کراچی میں جس طرح بلوچ آئس کریم، وحید کباب، صابری نہاری اور سٹوڈنٹ بریانی وغیرہ اپنے ذائقے کی وجہ سے علاقائی پہچان رکھتے ہیں ایسے ہی میوزیکل فاؤنٹین کی وجہ سے بعض اشیا مشہور ہوئیں
میوزیکل فاؤنٹین کو یاد کرتے ہوئے آر جان سیوک رائے نے فیس بک پر لکھا تھا کہ اس علاقے کی دائیں اور بائیں جانب 1960 کی دہائی تک جھاڑیاں ہوتی تھیں جب ان کے والد چندو رائے کراچی میں بنائے گئے ڈائیوسیز کے پہلے پروٹسٹنٹ بشپ بنے
ڈائیوسیز مسیحی بشپ کے زیرِ اتنظام زمینی علاقے کو کہا جاتا ہے۔ ڈائیوسز کی آٹھ بیڈ رومز پر مشتمل دو منزلہ عمارت کے نیچے دفتر تھا۔ ان کے والدین، دو بہنیں بھائی اوپر رہتے تھے جہاں سے میوزیکل فاؤنٹین کا دلکش منظر نظر آتا تھا۔ جعفر برادرز کے بابر ٹوپسی ہوتی تھی جہاں فالودہ، کوک اور فانٹا ڈرنکس کار میں ہی پیش کی جاتی تھی
فوارہ چوک
’اس دشت میں اک شہر تھا‘ میں اقبال رحمان مانڈوی والا لکھتے ہیں کہ یہ فوراہ ایک ایسی جگہ نصب تھا جو براہ راست بادِ دلربا کی گزرگاہ تھی جو نسیم بحری کہلاتی ہے اور سہ پہر کو جب چلنا شروع ہوتی ہے تو گویا قیامت ڈھاتی
اس چوک کی اسی دلکشی کے سب ٹرینٹی چرچ کی بغلی دیوار کے ساتھ گلی نما سڑک نے کنج تفرح کا درجہ پالیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہاں ٹوپسی کے نام سے ٹھنڈے مشروبات کی دکان کھل گئی
گاڑیوں میں بیٹھے آرڈر دیجیے اور کولڈ ڈرنک، آئسکریم اور فالودے کا لطف اٹھایے جبکہ کچھ لوگ لطف بڑھانے کے لیے تانگے یا وکٹوریا بگی پر آتے تھے
وہ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک بلوچ بابا آتے تھے جو ہارمونیم بجاتے اور ایک بانسری والا۔ رات کی بھیگی فضا، ٹھنڈی ہوا، میوزک کے تڑکے کے ساتھ بہتے جھرنے کی مدھر آواز، ہارمونیم کے ساتھ بلوچ بابا کی بکھیری ہوئی راگ ایمن اور راگ بھوپالی پر بنے گانوں کی دھنیں اور بانسری سے نکل کر اڑتی سریلی تانیں ان دلفریب نغموں سے بنے ماحول کی کیا بات ہے
اداکاروں کے فاؤنٹین کے گرد پھیرے
پاکستان کی فلمی صنعت ابھی لاہور منتقل نہیں ہوئی تھی اس کا صدر مقام کراچی میں تھا اور کئی فلموں کے سین یہاں فلمائے گئے
اگر آپ نے وحید مراد اور زیبا کی مقبول ترین فلم ’ہیرا اور پتھر‘ دیکھی ہے تو احمد رشدی کی آواز میں گائے ہوئے گیت ’مجھے تم سے محبت ہے، اک بار ذرا تم کہہ دو‘ میں اس میوزیکل فاؤنٹین کو دیکھا جا سکتا ہے
گدھا گاڑی پر فلمائے گئے اس گیت میں اس فاؤنٹین کے چکر سمیت کراچی کے کئی پرانی عمارتیں دکھائی گئی ہیں۔ یہ فلم 1964 میں ریلیز ہوئی تھی
فوارہ چوک
ہنستا کھیلتا فوارہ بند ہو گیا
امین ایچ کریم فیس بک پر میوزیکل فاؤنٹین سے جڑی یادوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ میوزیکل فاؤنٹین میں موسیقی کے ساتھ رنگا رنگ لائٹس بھی جلا کرتی تھیں
تب فاؤنٹین میٹرو پول ہوٹل سے زینب مارکیٹ آتے ہوئے جعفر سنز کے سامنے تھا۔ اس کے عقب میں ریکس سینما، مے فیئر سینما بھی نہیں رہے یہاں پر اب مدینہ شاپنگ مال ہے، جبکہ ریکس سینما کے نام پر اب یہاں پاس میں ہی ریکس بریانی ملتی ہے جس کے نام کی نسبت سے شاید ہی کوئی واقف ہو
شبیر وراوالا فیس بک پر اپنے بچپن کے دنوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اس چوک پر جاتے تھے اور میوزیکل فاؤنٹین کے سروں سے لطف اندوز ہوتے تھے یہ شہر کی خوبصورتی میں ایک اضافہ تھا۔ اس کے ساتھ کیا ہوا، کیوں اور کب اس کو ہٹا دیا گیا، انھیں معلوم نہیں
محمد سعید جاوید ’ایسا تھا میرا کراچی‘ میں لکھتے ہیں کہ اس فوارے کے ساتھ ایک ہی چھوٹی سی کھڑکی تھی جس میں سے ایک ملازم کبھی کبھار نیچے اترتا نظر آجاتا تھا۔ جب بھی کسی وجہ سے اس کی موسیقی بند ہو جاتی تو وہ تیزی سے اس سرنگ نما کھڑکی سے چھلانگ لگا کر نیچے اترجاتا اور نہ جانے کیا کل پرزہ مروڑتا تھا کہ ایک بار پھر فضاؤں میں نغمے بکھرنے لگتے
ایک دن اس کے سر اچانک خاموش ہو گئے، ایک دو بار ’دھکا لگا کر سٹارٹ‘ کیا گیا مگر بات نہ بنی تو کاریگروں نے ہاتھ اٹھا دیے۔ بعد میں محض ایک فوراہ ہی رہ گیا جو صرف خانہ پری کے لیے مخصوص اوقات میں فضاؤں میں پانی اچھالتا رہتا تھا اور تب ہی ایک دن اس فوارے نے پانی اگلنے سے بھی انکار کردیا اور یوں ہنستا کھیلتا فوارہ بند ہو گیا
کراچی میں سنہ 1960 کی دہائی میں جوانی اور لڑکپن گزارنے والے لوگوں کے لیے میوزیکل فاؤنٹین اور ٹوپسی رنگین یادگار ماضی کا حصہ ہیں
محمد سعید جاوید کے مطابق رفتہ رفتہ دھول جمتی رہی۔ ایک دن کچھ لوگ کدال اور بیلچہ اٹھائے ہوئے آئے اور اس کو وہاں سے اکھاڑ کر چوک کو ہموار کر دیا، پتہ ہی نہ لگا کہ اس بیچارے کی لاش کو کہاں لے جایا گیا
بعد میں ہماری سکونت قصر صدارت کے اندر ہی رہی تھی، وہیں سٹاف کالونی کے دروازے پر یہ فوارہ نصب کیا گیا لیکن اب وہاں بھی اس کا نام و نشان نہیں
Comments
Post a Comment
aliasghar980@gmail.com